اعلانِ نبوّت سے پہلے
- جنگِ فجار
- حلف الفُضول
- ملک ِشام کا دوسرا سفر
- نکاح
- کعبہ کی تعمیر
- کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟
- مخصوص احباب
- موحدین عرب سے تعلقات
- کاروباری مشاغل
- غیر معمولی کردار
-: جنگِ فجار
-: جنگِ فجار
اسلام سے پہلے عربوں میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ انہی لڑائیوں میں سے ایک مشہور لڑائی “جنگ فجار” کے نام سے مشہور ہے۔ عرب کے لوگ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب، ان چار مہینوں کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان مہینوں میں لڑائی کرنے کو گناہ جانتے تھے۔ یہاں تک کہ عام طور پر ان مہینوں میں لوگ تلواروں کو نیام میں رکھ دیتے۔ اور نیزوں کی برچھیاں اتار لیتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھی کچھ ایسے ہنگامی حالات درپیش ہو گئے کہ مجبوراً ان مہینوں میں بھی لڑائیاں کرنی پڑیں۔ تو ان لڑائیوں کو اہل عرب “حروب فجار” (گناہ کی لڑائیاں) کہتے تھے۔ سب سے آخری جنگ فجار جو “قریش” اور “قیس” کے قبیلوں کے درمیان ہوئی اس وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عمر شریف بیس برس کی تھی۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے، اس لئے ابو طالب وغیرہ اپنے چچاوں کے ساتھ آپ نے بھی اس جنگ میں شرکت فرمائی۔ مگر کسی پر ہتھیار نہیں اٹھایا۔ صرف اتنا ہی کیا کہ اپنے چچاوں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ اس لڑائی میں پہلے قیس پھر قریش غالب آئے اور آخر کار صلح پر اس لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔
(سيرت ابن هشام ج۲ ص۱۸۶)
-: حلف الفُضول
-: حلف الفُضول
روز روز کی لڑائیوں سے عرب کے سیکڑوں گھرانے برباد ہو گئے تھے۔ ہر طرف بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ کوئی شخص اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو آرام، اس وحشت ناک صورتِ حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسند لوگوں نے جنگ فجار کے خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ چنانچہ بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو اسد وغیرہ قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار ان عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات کو سدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ خاندان قریش کے سرداروں نے ” بقائے باہم ” کے اصول پر ” جیو اور جینے دو ” کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:
-
مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
-
مظلوم کی حمایت کریں گے۔
-
ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
-
غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
-
کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی ۔اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “یاآل حلف الفضول ” کہہ کر مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔
اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔
(سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۳۴)
-: ملک ِشام کا دوسرا سفر
-: ملک ِشام کا دوسرا سفر
جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عمر شریف تقریباً پچیس سال کی ہوئی تو آپ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کی ایک بہت ہی مالدار عورت تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنی تجارت کا مال و سامان ملک شام بھیجیں۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نے اس کام کے لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو منتخب کیا اور کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں آپ کو اس کا دوگنا دوں گی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی اور تجارت کا مال و سامان لے کر ملک شام کو روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنے ایک معتمد غلام “میسرہ” کو بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ آپ کی خدمت کرتا رہے۔ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ملک شام کے مشہور شہر “بصریٰ” کے بازار میں پہنچے تو وہاں “نسطورا” راہب کی خانقاہ کے قریب میں ٹھہرے۔ “نسطورا” میسرہ کو بہت پہلے سے جانتا پہچانتا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صورت دیکھتے ہی “نسطورا” میسرہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ اے میسرہ ! یہ کون شخص ہیں جو اس درخت کے نیچے اتر پڑے ہیں۔ میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے رہنے والے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ان کا نام نامی “محمد” اور لقب “امین” ہے۔ نسطورا نے کہا کہ سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں اترا۔ اس لئے مجھے یقین کامل ہے کہ “نبی آخر الزماں” یہی ہیں۔ کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں جو میں نے توریت و انجیل میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش ! میں اس وقت زندہ رہتا جب یہ اپنی نبوت کا اعلان کریں گے تو میں ان کی بھر پور مدد کرتا اور پوری جاں نثاری کے ساتھ ان کی خدمت گزاری میں اپنی تمام عمر گزار دیتا۔ اے میسرہ ! میں تم کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ خبردار ! ایک لمحہ کے لئے بھی تم ان سے جدا نہ ہونا اور انتہائی خلوص و عقیدت کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالٰی نے ان کو “خاتم النبیین” ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بصریٰ کے بازار میں بہت جلد تجارت کا مال فروخت کر کے مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ واپسی میں جب آپ کا قافلہ شہر مکہ میں داخل ہونے لگا تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہھا ایک بالا خانے پر بیٹھی ہوئی قافلہ کی آمد کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی نظر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پڑی تو انہیں ایسا نظر آیا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سر پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے قلب پر اس نورانی منظر کا ایک خاص اثر ہوا اور وہ فرط عقیدت سے انتہائی والہانہ محبت کے ساتھ یہ حسین جلوہ دیکھتی رہیں۔ پھر اپنے غلام میسرہ سے انہوں نے کئی دن کے بعد اس کا ذکر کیا تو میسرہ نے بتایا کہ میں تو پورے سفر میں یہی منظر دیکھتا رہا ہوں۔ اور اس کے علاوہ میں نے بہت سی عجیب و غریب باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پھر میسرہ نے نسطورا راہب کی گفتگو اور اسکی عقیدت و محبت کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو آپ سے بے پناہ قلبی تعلق، اور بے حد عقیدت و محبت ہو گئی اور یہاں تک ان کا دل جھک گیا کہ انہیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ہو گئی۔
(مدارج النبوة ج۲ ص ۱۸)
-: نکاح
-: نکاح
حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عفت مآب خاتون تھیں۔ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے ان کو طاہرہ (پاکباز) کہا کرتے تھے۔ ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی پہلے ان کا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا تھا اور ان سے دو لڑکے “ہند بن ابو ہالہ”اور “ہالہ بن ابو ہالہ” پیدا ہو چکے تھے۔ پھر ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دوسرا نکاح “عتیق بن عابد مخزومی ” سے کیا۔ ان سے بھی دو اولاد ہوئی، ایک لڑکا ’’ عبداللہ بن عتیق ” اور ایک لڑکی “ہند بنت عتیق”۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے دوسرے شوہر “عتیق” کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے سردار ان قریش ان کے ساتھ عقد نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے سب پیغاموں کو ٹھکرا دیا۔ مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حیرت انگیز حالات کو سن کر یہاں تک ان کا دل آپ کی طرف مائل ہو گیا کہ خود بخود ان کے قلب میں آپ سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی۔ کہاں تو بڑے بڑے مالداروں اور شہر مکہ کے سرداروں کے پیغاموں کو رد کر چکی تھیں اور یہ طے کر چکی تھیں کہ اب چالیس برس کی عمر میں تیسرا نکاح نہیں کروں گی اور کہاں خود ہی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بلایا جو ان کے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں۔ ان سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں پھر ” نفیسہ” بنت امیہ کے ذریعہ خود ہی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ مشہور امام سیرت محمد بن اسحق نے لکھا ہے کہ اس رشتہ کو پسند کرنے کی جو وجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بیان کی ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ اِنِّيْ قَدْ رَغِبْتُ فِيْكَ لِحُسْنِ خُلْقِكَ وَ صِدْقِ حَدِيْـثِكَ ‘‘ یعنی میں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اچھے اخلاق اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچائی کی وجہ سے آپ کو پسند کیا۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۰)
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس رشتہ کو اپنے چچا ابو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ بھلا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جیسی پاک دامن، شریف، عقلمند اور مالدار عورت سے شادی کرنے کو کون نہ کہتا ؟ سارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کر لیا۔اور نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شرفاء بنی ہاشم و سرداران مضر کو اپنی برات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔ اس نکاح کے وقت ابو طالب نے نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے خاندانی بڑے بوڑھوں کا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے متعلق کیسا خیال تھا اور آپ کے اخلاق و عادات نے ان لوگوں پر کیسا اثر ڈالا تھا۔ ابو طالب کے اس خطبہ کا ترجمہ یہ ہے:
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم لوگوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں بنایا اور ہم کو معد اور مضر کے خاندان میں پیدا فرمایا اور اپنے گھر (کعبہ) کا نگہبان اور اپنے حرم کا منتظم بنایااور ہم کو علم و حکمت والا گھر اور امن والا حرم عطا فرمایا اور ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا۔
یہ میرے بھائی کا فرزند محمد بن عبداللہ ہے۔ یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے جس شخص کا بھی اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے یہ اس سے ہر شان میں بڑھا ہوا ہی رہے گا۔ ہاں مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں اور ادل بدل ہونے والی چیز ہے۔ اما بعد ! میرا بھتیجا محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اور قربت و محبت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ وہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کرتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک، عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۱)
جب ابو طالب اپنا یہ ولولہ انگیز خطبہ ختم کر چکے تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ پڑھا۔ جس کا مضمون یہ ہے:
خدا ہی کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ایسا ہی بنایا جیسا کہ اے ابو طالب ! آپ نے ذکر کیا اور ہمیں وہ تمام فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جن کو آپ نے شمار کیا۔ بلاشبہ ہم لوگ عرب کے پیشوا اور سردار ہیں اور آپ لوگ بھی تمام فضائل کے اہل ہیں۔ کوئی قبیلہ آپ لوگوں کے فضائل کا انکار نہیں کر سکتااور کوئی شخص آپ لوگوں کے فخر و شرف کو رد نہیں کر سکتا اور بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اور رشتہ میں شامل ہونے کو پسند کیا۔ لہٰذا اے قریش ! تم گواہ رہو کہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا کو میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی زوجیت میں دیا چار سو مثقال مہر کے بدلے۔
غرض حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا نکاح ہوگیا اور حضور محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خانہ معیشت ازدواجی زندگی کے ساتھ آباد ہو گیا۔ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تقریباً ۲۵ برس تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں رہیں اور ان کی زندگی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا باقی آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ جن کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنی ساری دولت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قدموں پر قربان کر دی اور اپنی تمام عمر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی غمگساری اور خدمت میں نثار کر دی۔
-: کعبہ کی تعمیر
-: کعبہ کی تعمیر
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کی بدولت خداوند عالم عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو اس قدر مقبولِ خلائق بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثال دانائی کا ایسا عظیم جوہر عطا فرما دیا کہ کم عمری میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے جھگڑوں کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں اور سرداروں نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا، اور سب نے بالاتفاق آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنا حکم اور سردارِ اعظم تسلیم کر لیا۔ چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ تعمیر کعبہ کے وقت پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عمر پینتیس (۳۵) برس کی ہوئی تو زور دار بارش سے حرم کعبہ میں ایسا عظیم سیلاب آ گیا کہ کعبہ کی عمارت بالکل ہی منہدم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا بنایا ہوا کعبہ بہت پرانا ہو چکا تھا۔ عمالقہ، قبیلۂ جرہم
اور قصی وغیرہ اپنے اپنے وقتوں میں اس کعبہ کی تعمیر و مرمت کرتے رہے تھے مگر چونکہ عمارت نشیب میں تھی اس لئے پہاڑوں سے برساتی پانی کے بہاؤ کا زور دار دھارا وادیٔ مکہ میں ہو کر گزرتا تھا اور اکثر حرم کعبہ میں سیلاب آ جاتا تھا۔ کعبہ کی حفاظت کے لیے بالائی حصہ میں قریش نے کئی بند بھی بنائے تھے مگر وہ بند بار بار ٹوٹ جاتے تھے۔ اس لیے قریش نے یہ طے کیا کہ عمارت کو ڈھا کر پھر سے کعبہ کی ایک مضبوط عمارت بنائی جائے جس کا دروازہ بلند ہو اور چھت بھی ہو۔ چنانچہ قریش نے مل جل کر تعمیر کا کام شروع کر دیا۔اس تعمیر میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور سردار ان قریش کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے مختلف قبیلوں نے تعمیر کے لیے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لئے۔ جب عمارت ’’ حجر اسود ‘‘ تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ ہم ہی ’’ حجراسود ‘‘ کو اٹھا کر دیوار میں نصب کریں۔ تا کہ ہمارے قبیلہ کے لئے یہ فخر و اعزاز کا باعث بن جائے۔ اس کشمکش میں چار دن گزر گئے یہاں تک نوبت پہنچی کہ تلواریں نکل آئیں بنو عبدالدار اور بنو عدی کے قبیلوں نے تو اس پر جان کی بازی لگا دی اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی قسموں کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پیالہ میں خون بھر کر اپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن حرم کعبہ میں تمام قبائل عرب جمع ہوئے اور اس جھگڑے کو طے کرنے کے لئے ایک بڑے بوڑھے شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ کل جو شخص صبح سویرے سب
سے پہلے حرم کعبہ میں داخل ہو اس کو پنچ مان لیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کر دے سب اس کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ سب نے یہ بات مان لی۔ خدا عزوجل کی شان کہ صبح کو جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہوا وہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے کہ واللہ یہ ’’ امین ‘‘ ہیں لہٰذا ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا اس طرح تصفیہ فرمایا کہ پہلے آپ نے یہ حکم دیا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ حجر اسود کو اس کے مقام پر
رکھنے کے مدعی ہیں ان کا ایک ایک سردار چن لیا جائے۔ چنانچہ ہر قبیلہ والوں نے اپنا اپنا سردار چن لیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کو بچھا کر حجراسود کو اس پر رکھااور سرداروں کو حکم دیا کہ سب لوگ اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر کو اٹھائیں۔ چنانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھایا اور جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے متبرک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح ایک ایسی خونریز لڑائی ٹل گئی جس کے نتیجہ میں نہ معلوم کتنا خون خرابا ہوتا۔
(سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۹۶ تا۱۹۷)
خانہ کعبہ کی عمارت بن گئی لیکن تعمیر کے لئے جو سامان جمع کیا گیا تھا وہ کم پڑ گیا اس لئے ایک طرف کا کچھ حصہ باہر چھوڑ کر نئی بنیاد قائم کر کے چھوٹا سا کعبہ بنا لیا گیا کعبہ معظمہ کا یہی حصہ جس کو قریش نے عمارت سے باہر چھوڑ دیا “حطیم” کہلاتا ہے جس میں کعبہ معظمہ کی چھت کا پرنالا گرتا ہے۔
-: کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟
-: کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے “تاریخ مکہ” میں تحریر فرمایا ہے کہ “خانہ کعبہ” دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:
(۱) سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک “بیت المعمور” کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔(۲) پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔ (۳) اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔(۴) اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلٰوۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔ (۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔ (۶) اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔ (۷) قریش کے مورث اعلیٰ “قصی بن کلاب” کی تعمیر۔ (۸) قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ (۹) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اور ایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔ (۱۰) عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔
لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر (۲) زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے (۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔ حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(حاشيه بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکه)
-: مخصوص احباب
اعلانِ نبوت سے قبل جو لوگ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے مخصوص احباب و رفقاء تھے وہ سب نہایت ہی بلند اخلاق، عالی مرتبہ، ہوش مند اور باوقار لوگ تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مقرب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جو برسوں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ وطن اور سفر میں رہے۔ اور تجارت نیز دوسرے کاروباری معاملات میں ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے شریک کا رو راز دار رہے۔ اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تَعَالٰی عنہا کے چچا زاد بھائی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالٰی عنہ جو قریش کے نہایت ہی معزز رئیس تھے اور جن کا ایک خصوصی شرف یہ ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی تھی، یہ بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے مخصوص احباب میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ 1 حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جو زمانہ جاہلیت میں طبابت اور جراہی کا پیشہ کرتے تھے یہ بھی احباب خاص میں سے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ اپنے گاؤں سے مکہ آئے تو کفار قریش کی زبانی یہ پروپیگنڈا سنا کہ محمد( صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم) مجنون ہو گئے ہیں ۔ پھر یہ دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم راستہ میں تشریف لے جارہے ہیں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پیچھے لڑکوں کا ایک غول ہے جو شور مچا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کچھ شبہ پیدا ہوا اور پرانی دوستی کی بنا پر ان کو انتہائی رنج و قلق ہوا ۔چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد!(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم)میں طبیب ہوں اور جنون کا علاج کر سکتا ہوں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے خداعزوجل کی حمدو ثنا کے بعد چند جملے ارشاد فرمائے جن کا حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ فوراً ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ 2
(مشکوٰۃ باب علامات النبوۃ ص ۲۲۵ومسلم ج اول ص ۲۸۵ کتاب الجمعہ)
حضر ت قیس بن سائب مخزومی رضی اللہ تعالٰی عنہ تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے شریک کار رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے گہرے دوستوں میں سے تھے ۔کہا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا معاملہ اپنے تجارتی شرکا کے ساتھ ہمیشہ نہایت ہی صاف ستھرا رہتا تھااورکبھی کوئی جھگڑاپیش نہیں آتاتھا۔ 3
(استیعاب ج ۲ ص ۵۳۷)
1
سدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، حکیم بن حزام ، ج۲، ص۵۸مختصراً
2
مشکاۃ المصابیح ، کتاب الفضائل والشمائل ، باب علامات النبوۃ ، الفصل الاول، الحدیث : ۵۸۶۰، ج۲، ص۳۷۴
3
الاستیعاب ، حرف القاف، ج۳، ص۳۴۹
-: موحدین عرب سے تعلقات
-: موحدین عرب سے تعلقات
عرب میں اگرچہ ہر طرف شرک پھیل گیا تھا اور گھر گھر میں بت پرستی کا چرچا تھا۔ مگر اس ماحول ميں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو توحید کے پرستار، اور شرک و بت پرستی سے بیزار تھے ۔ انہی خوش نصبوں ميں زید بن عمرو بن نفیل ہيں۔ یہ علی الاعلان شرک و بت پرستی سے انکار، اور جاہلیت کی مشرکانہ رسموں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چچا زاد بھائی ہيں۔ شرک و بت پرستی کے خلاف اعلان مذمت کی بنا پر ان کا چچا “خطاب بن نفیل” ان کو بہت زیادہ تکلیفيں دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے شہر بدر کر دیا تھا اور ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر یہ ہزاروں ایذاوں کے باوجود عقیدۂ توحید پر پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ کے دو شعر بہت مشہور ہیں جن کو یہ مشرکیں کے میلوں اور مجمعوں میں بہ آواز بلند سنایا کرتے تھے کہ
اَدِيْنُ اِذَا تُقُسِّمَتِ الْاُمُوْرِ
کَذَالِكَ يَفْعَلُ الرَّجُلُ الْبَصِيْر
اَرَبًّا وَّاحِدًا اَمْ اَلْفَ رَبٍّ
تَرَكْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّيٰ جَمِيْعًا
یعنی کیا میں ایک رب کی اطاعت کروں یا ایک ہزار رب کی ؟ جب کہ لوگوں کے دینی معاملات تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں نے تو لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور ہر بصیرت والا ایسا ہی کرے گا
(سيرت ابن هشام ج ۱ص۲۲۶)
یہ مشرکین کے دین سے متنفر ہو کر دین برحق کی تلاش میں ملک شام چلے گئے تھے۔ وہاں ایک یہودی عالم سے ملے۔ پھر ایک نصرانی پادری سے ملاقات کی اور جب آپ نے یہودی و نصرانی دین کو قبول نہیں کیا تو ان دونوں نے ” دین حنیف ” کی طرف آپ کی رہنمائی کی جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا دین تھا اور ان دونوں نے یہ بھی بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی، اور وہ ایک خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر زید بن عمرو بن نفیل ملک شام سے مکہ واپس آگئے۔ اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مکہ میں بہ آواز بلند یہ کہا کرتے تھے کہ اے لوگو ! گواہ رہو کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔
(سيرت ابن هشام ج ۱ص۲۲۵)
اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ زید بن عمرو بن نفیل کو بڑا خاص تعلق تھا اور کبھی کبھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وحی نازل ہونے سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مقام ” بلدح ” کی ترائی میں زید بن عمرو بن نفیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے دستر خوان پر کھانا پیش کیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کر دیا، تو زید بن عمرو بن نفیل کہنے لگے کہ میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ تعالٰی کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرنے لگے اور قریش کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکری کو اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا اور اللہ تعالی ٰ نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے گھاس اگائی۔ پھر اے قریش ! تم بکری کو اللہ کے غیر (بتوں) کے نام پر ذبح کرتے ہو ؟
(سيرت ابن هشام ج ۱ ص۲۲۶)
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کہتی ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کہتے تھے کہ اے جماعت قریش ! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر نہیں ہے۔
(بخاری ج۱ باب حديث زید بن عمرو بن نفيل ص۵۴۰)
-: کاروباری مشاغل
-: کاروباری مشاغل
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے۔ جس سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اس لئے ذریعہ معاش کے لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اور تجارت کی غرض سے شام و بُصریٰ اور یمن کا سفر فرمایا۔ اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکاء کار اور تمام اہل بازار آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو “امین” کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کے لئے امانت، سچائی، وعدہ کی پابندی، خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادر روزگار ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔ بس صرف اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
(سنن ابو داؤد ج۲ ص۳۳۴ باب فی العدة ۔ مجتبائی)
اسی طرح ایک صحابی حضرت سائب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب مسلمان ہو کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو لوگ ان کی تعریف کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں انہیں تمہاری نسبت زیادہ جانتا ہوں۔ حضرت سائب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں میں عرض گزار ہوا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر فدا ہوں آپ نے سچ فرمایا، اعلان نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، آپ نے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھا۔
(سنن ابوداؤد ج۲ ص۳۱۷ باب کراهيةالمرا ۔ مجتبائی )
-: غیر معمولی کردار
-: غیر معمولی کردار
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ طفولیت ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شباب مجسم حیاء اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی تو کیا؟ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خاص شیوہ تھا۔
حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے برگزیدہ اخلاق کا اعتبار، اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ایک خاص وقار تھا۔
بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہو گئی۔ لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم، اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔