مدینہ میں آفتاب رِسالت

-: مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

’’مدینہ منورہ‘‘ کا پرانا نام ’’یثرب‘‘ ہے۔ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام ’’مدینۃ النبی‘‘ (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ پھر یہ نام مختصر ہو کر ’’مدینہ‘‘ مشہور ہو گیا۔ تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو اِس شہر میں عرب کے دو قبیلے ’’اوس‘‘ اور ’’خزرج‘‘ اور کچھ ’’یہودی‘‘ آباد تھے۔ اوس و خزرج کفارِ مکہ کی طرح ’’بت پرست‘‘ اور یہودی ’’اہل کتاب‘‘ تھے ۔اوس و خزرج پہلے تو بڑے اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے مگر پھر عربوں کی فطرت کے مطابق اِن دونوں قبیلوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں ۔ یہاں تک کہ آخری لڑائی جو تاریخ عرب میں ’’جنگ بعاث‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس قدر ہولناک اور خونریز ہوئی کہ اس لڑائی میں اوس و خزرج کے تقریباً تمام نامور بہادر لڑ بھڑ کر کٹ مر گئے اور یہ دونوں قبیلے بے حد کمزور ہوگئے۔ یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے مگر چونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اس لئے اوس و خزرج ہمیشہ یہودیوں کی علمی برتری سے مرعوب اور ان کے زیر اثر رہتے تھے ۔

اِسلام قبول کرنے کے بعد رسولِ رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مقدس تعلیم و تربیت کی بدولت اوس و خزوج کے تمام پرانے اختلافات ختم ہو گئے اور یہ دونوں قبیلے شیروشکر کی طرح مل جل کر رہنے لگے ۔اورچونکہ اِن لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اپنے تن من دھن سے بے پناہ امداد و نصرت کی اِس لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان خوش بختوں کو ’’انصار‘‘ کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیااور قرآن کریم نے بھی ان جاں نثاران اسلام کی نصرت رسول و امدادِ مسلمین پر ان خوش نصیبوں کی مدح و ثنا کا جابجا خطبہ پڑھا اور ازروئے شریعت انصار کی محبت اور ان کی جناب میں حسن عقیدت تمام اُمت ِمسلمہ کیلئے لازم الایمان اور واجب العمل قرار پائی۔ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین)

مدینہ میں اسلام کیونکر پھیلا

انصار گوبت پرست تھے مگر یہودیوں کے میل جول سے اتنا جانتے تھے کہ نبی آخر الزمان کاظہور ہونے والا ہے ا ور مدینہ کے یہودی اکثر انصار کے دونوں قبیلوں اوس و خزرج کو دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان کے ظہور کے وقت ہم ان کے لشکر میں شامل ہو کر تم بت پرستوں کو دنیا سے نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ اس لئے نبی آخر الزمان کی تشریف آوری کا یہود اور انصار دونوں کو انتظار تھا۔

۱۱ نبوی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم معمول کے مطابق حج میں آنے والے قبائل کو دعوت اسلام دینے کے لئے منیٰ کے میدان میں تشریف لے گئے اور قرآنِ مجید کی آیتیں سنا سنا کر لوگوں کے سامنے اسلام پیش فرمانے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم منیٰ میں عقبہ(گھاٹی) کے پاس جہاں آج ’’مسجد العقبہ‘‘ ہے تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ان لوگوں سے ان کا نام و نسب پوچھا۔ پھر قرآن کی چند آیتیں سنا کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے یہ لوگ بے حد متاثر ہوگئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر واپسی میں یہ کہنے لگے کہ یہودی جس نبی آخر الزمان کی خوشخبری دیتے رہے ہیں یقینا وہ نبی یہی ہیں ۔ لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کر لیں ۔ یہ کہہ کر سب ایک ساتھ مسلمان ہو گئے اور مدینہ جا کر اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی ۔ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں ۔ (۱)حضرت عقبہ بن عامر بن نابی۔ (۲)حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ(۳)حضرت عوف بن حارث(۴) حضرت رافع بن مالک(۵) حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ(۶)حضرت جابر بن عبداﷲ بن ریاب۔ 1 (رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین)

(مدارج النبوۃ ج۲ ص۵۱ وزرقانی ج۱ ص۳۱۰)


-: بیعت عقبہ اولیٰ

-: بیعت عقبہ ثانیہ

-: ہجرت مدینہ

-: کفار کانفرنس

-: ہجرتِ رسول کا واقعہ

-: کاشانۂ نبوت کا محاصرہ

-: سو اونٹ کا انعام

-: اُمِ معبد کی بکری

-: سراقہ کا گھوڑا

-: بریدہ اسلمی کا جھنڈا

-: حضرت زبیر کے بیش قیمت کپڑے

-: شہنشاہ رسالت مدینہ میں